تحریر: محمد بشیر دولتی
حوزہ نیوز ایجنسی| انسان جوں جوں ترقی کرتا جارہا ہے، مہلک ہتھیاروں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، دور جدید میں جس کے پاس جدید اور مہلک ہتھیار ہوں اسے قبل از جنگ فاتح قرار دیا جاتا ہے۔
ہم پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ہوں ذہنی طور پر جدید ٹیکنالوجی سے مالا مال ملک کو اپنا حاکم و آقا تصور کرتے ہیں۔ایسے ممالک کسی پر ظلم و ذیادتی کریں تو اکثر لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پر ظالم کی حمایت کرتے ہیں مظلوم کی استقامت و جدوجہد کو امن عامہ کے لئے خطرناک اور خاموش ظلم سہنے کو بہترین عمل سمجھتے ہیں۔
ظالم و مظلوم اور حق و انصاف کے معیاروں کو غیر ضروری اقدار سمجھتے ہیں، حالیہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر ایک طبقے کو آپ پیشرفتہ ظالموں کی مدح سرائی کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جبکہ مقاومتی بلاک بھی اب پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔فلسطینیوں نے غلیل اور پتھروں سے مختلف میزائلوں تک، ننگے پیر یمنیوں نے سعودی اتحاد کے فضائی حملوں کے بعد جدید میزائلوں اور پیشرفتہ ڈرون تک کا سفر طے کیا ہے، جس ایران کو عراق جنگ کے دوران کوئی خاردار تار بھی بھیجنے کے لئے تیار نہیں تھا، وہ ملک اب عالمی سطح پر جدید میزائلوں سے خطرناک ڈرون تک برآمد کرنے کا سفر شروع کر چکا ہے، گویا ایران اور مقاومتی بلاک اس وقت فقط آئیڈیا لوجی ہی نہیں، بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہوگئے ہیں، شہادت طلبانہ آئیڈیالوجی ہی ان کی جرأت و استقامت کا باعث بن رہی ہے، ایران نہ فقط خود جدید ٹیکنالوجی میں پیشرفت کررہا ہے، بلکہ وہ مقاومتی بلاک کو بھی جدید ٹیکنالوجی فراہم کررہا ہے، اس وقت جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کی دھاگ بیٹھ چکی ہے، ایران کی اس پیشرفت کا اندازہ لگانے کے لئے ہم فقط چند واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہیں۔
2011 میں امریکہ نے ایرانی ایٹمی سرگرمیوں کی جاسوسی کی غرض سے اپنے ایک جدید ترین ڈرون کو روانہ کیا، یہ انتہائی جدید و پیشرفتہ ڈرون RQ_170 تھا، یہ ریڈار پہ نہ آنے والا ڈرون تھا، یہ ڈرون جیسے ہی افغانستان سے اڑ کر ایرانی فضائی سرحد میں داخل ہوا، ایرانیوں نے اس جدید ڈرون کے سسٹم میں گھس کر ڈرون کو ہی ہیک کرلیا، بقول خود امریکہ کے: کسی بھی ریڈار سے نظر نہ آنے والے ڈرون کو ایران نے نہ فقط اپنے ریڈار سسٹم پہ شناسائی کی، بلکہ اس کے جدید سسٹم کو خود امریکہ سے ہیک کر کے نہ فقط چھین لیا، بلکہ بحفاظت اسے ایران میں اتار کر اس کی ڈپلوکیٹ بھی بنا دیا، ایران کی طرف سے امریکی ڈرون اتارنے کی یہ خبر جب منتشر ہوئی تو امریکہ نے ابتداء میں حسب سابق اسے رد کردیا، سوشل میڈیا کے دانشور ایران کے اس دعوے کا مزاق اڑانے لگے، چونکہ یہ طبقہ ذہنی و فکری طور پر امریکہ و دیگر مغربی ممالک کی پیشرفت کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا ہے، یہ طبقہ ذہنی طور پر غلامانہ فکر رکھتا ہے، جسے اب بھی آپ سوشل میڈیا پہ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
جدید امریکی ڈرون "گلوبل ڈیوک ہاٹ" بیس جون 2019 کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بارہ بج کر چودہ منٹ پر جنوبی خلیج فارس میں قائم ایک امریکی فوجی اڈے سے اڑا، اس ڈرون نے ایوی ایشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شناخت بتانے والے تمام آلات بند کر دیئے، یہ انتہائی خاموشی اور سرعت سے آبنائے ہرمز کے راستے چابھار کی طرف بڑھتا چلا گیا، یہ صبح سویرے چار بج کر پانج منٹ پر ایران کی حدود میں داخل ہوتے ہی ایرانی ائیر کرافٹ میزائل کے ذریعے تباہ ہوگیا، یہ ائیر کرافٹ خالص ایرانی ساختہ ائیر کرافٹ تھا، یہ ڈرون پینتیس ارب کی مالیت سے بننے والا دنیا کا وزنی ترین اور جدید ترین اور مہنگا ترین ڈرون تھا، یہ چالیس ہزار کی بلندی سے زمین پر ہونے والی ہر نقل و حرکت کو سیکنڈوں میں اپنے مرکز پہ منتقل کرسکتا تھا، یہ آسانی کے ساتھ فضاء میں رہ کر زمین پہ چلنے والی گاڑی کا پلیٹ نمبر محفوظ کر سکتا تھا، یہ ڈرون امریکی لڑاکا طیارہ "F16" سے چار گنا زیادہ تیز رفتار تھا، غرض کسی بھی ریڈار میں نہ آنا اس کی خاص صفت تھی؛ اس ڈرون کو گرانے کے بعد امریکہ نے خود ہی اپنی ائیرلائنز کی ایرانی فضائی حدود سمیت خلیج فارس اور بحیرہ عمان پر پرواز پر فوری پابندی لگائی تھی۔
اس واقعے کے بعد امریکی فوجی ماہر اولریک فرینک نے کہا تھا کہ امریکی فوجی حیثیت کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد اب امریکی حکومت کا کیا رد عمل ہوگا؟
قارئین کرام کو بتاتا چلوں کہ امریکی حکومت کی طرف سے اس بہت بڑے نقصان پر کوئی عملی رد عمل نہیں آیا تھا، البتہ امریکہ نے اس ڈرون کو گرانے کے بعد ایران میں تین مقامات کو ٹارگٹ کرنے کی منظوری دی تھی، لیکن امریکہ ایران کے ان مقامات پر حملہ نہیں کرسکا، چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے مطابق اس سے ایران میں "ایک سو پچاس" افراد ہلاک ہوسکتے تھے، اس لئے بقول ٹرمپ کے دس منٹ پہلے امریکی فوج کو حملے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ دنیا میں اب تک تیس سے زیادہ جنگیں لڑ چکا ہے، ان میں لاکھوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
فقط ویتنام پر مسلط کردہ سولہ سالہ امریکی جنگ میں تیس لاکھ ویتنامی مارے گئے ہیں، افغانستان میں اسی ہزار کے قریب بے گناہ مارے گئے، جبکہ لاکھوں زخمی ہوئے ہیں، اسی امریکہ نے پاکستان و افغانستان کے قبائلی علاقوں میں ہسپتالوں، اسکولوں، شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر مدرسے کے چھوٹے چھوٹے کم سن قاریوں و حافظان قرآن کو خاک و خوں میں نہلایا ہے۔
اس قاتل اور ظالم امریکہ کو ایران میں ڈیڑھ سو بے گناہوں کے مارے جانے کی فکر لگی تو وہ کسی انسانی جذبے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایران کی مضبوط آئیڈیالوجی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں خطرناک پیشرفت ہی واحد وجہ تھی، ایران اپنی بہترین آئیڈیا لوجی، سیاسی بصیرت اور جنگی تجربہ کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی پیشرفت کرتا جارہا ہے، ان کے پیشرفتہ ڈرون یمنی انصار اللہ اور لبنانی حزب اللہ اور عراقی حشد شعبی کے ذریعے نہ فقط اسرائیل میں حملہ آور ہیں، بلکہ جاسوسی معلومات لے کر واپس بھی آ رہے ہیں، دوسری طرف یمن اور لبنان میں درجنوں اسرائیلی و امریکی ساختہ ڈرون گرا چکے ہیں۔
میزائل کی دنیا میں ایرانی خود ساختہ میزائلوں کے ہدف مند ہونے کو اب پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے، امریکی ائیر بیس عین الاسد پہ حملے سے لے کر دو مرتبہ اسرائیل پر ایرانی حملے گواہ ہیں کہ ان کے میزائلوں نے امریکہ سمیت، یورپی یونین اور اسرائیل کے دفاعی نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔
ایران نے حالیہ حملے میں اسرائیلی آئرن ڈوم کے علاوہ امریکی جدید ترین ریڈار سسٹم "ایکس بینڈ" کو بھی تباہ کیا ہے جو اسرائیل کے دفاع کے لئے اسرائیل میں نصب تھے، یہ جدید ریڈار تین ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر پانج میٹر سائز کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا پتہ لگا سکتا تھا، یہ پانچ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر کسی بھی وقت میں لانج ہونے والے میزائل ڈرون جگے کا تعین بھی کر سکتا تھا، یہ ریڈار اسرائیل کے نگب اور نواطیم بیس کے قریب نصب تھا، ایران نے کامیابی کے ساتھ ان ریڈاروں کو بھی تباہ کیا، اس پر امریکہ بہادر ابھی تک انگشت بہ دنداں ہے، گویا ان کی آنکھوں کے تارے کو بھی ایرانی میزائلوں نے تباہ کردیا۔
جدید ٹیکنالوجی میں بہترین پیشرفت کے باوجود ایران کی اصل طاقت کربلا سے حاصل کردہ شہادت طلبانہ آئیڈیالوجی ہی اسرائیل کی نابودی کا سبب بنے گی۔ ان شاءاللہ
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔